ان کے لباس کے لحاظ سے قرآن میں ارشاد ہے کہ ” اور مومن مردوں سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی کریں اور اعتدال کریں یہ ان کے لئے خالص ہے بے شک اللہ ان کے کاموں سے واقف ہے اور مومن خواتین سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی اور شائستہ رکھیں اور صرف اس زینت کا مظاہرہ کریں جو ظاہر ہے وہ اپنی چھاتی پر پردہ ڈالیں اور انکشاف نہ کریں”۔
اسلام میں مسلم خواتین کے لئے اثر و رسوخ کےچار ذرائع ہیں پہلے دو” قرآن اور احادیث” کو بنیادی ماخذ سمجھا جاتا ہے جب کے بقیہ دو ” ثانوی اور اخذ کردہ "ہیں۔ قرآن تمام مسلمانوں اور ان کے حیاتیاتی جنسی تعلق سے قطع نظر ، اور علم کی جستجو کے لیے کوششیں کرنے کا حکم دیتا ہے یہ خدا کی نشانیوں سے پڑھنے ،سوچنے غور کرنے ،اور سیکھنے کی مستقل ترغیب دیتا ہے مزید یہ کہ معلم نے مرد اور عورت دونوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ علم کی تلاش ہر مذہبی عورت اور مرد پر لازم ہے۔ اپنے مرد ہم منصب کی طرح ہر عورت اخلاقی اور مذہبی ذمہ داری کے تحت ہے کہ وہ علم حاصل کرے اپنی عقل کو فروغ دے اپنا نظریہ وسیع کرے اپنی صلاحیتوں کی ترجمانی کرے اور پھر ان صلاحیتوں کو اپنے اور معاشرے کے فائدے میں بروئے کار لائے۔ نو آبادیاتی عہد کے دوران برطانوی سلطنت کے اوائل تک مسلمانوں کے درمیان صنف کی جدوجہد جاری رہی۔
1930 کی دہائی تک 25 لاکھ لڑکیاں سکولوں میں داخل ہو چکی تھیں ان میں سے0.5 فیصد مسلمان تھی کچھ علماء قرآن مجید کی آیت نمبر 23 : 28 میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی جو ایک سوداگر تھیں سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالی عنہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ یہ بات واضح اشارہ اور دلیل ہے کہ مسلمان خواتین ایک حد میں گھروں سے باہر رہ کر ملازمت کر سکتی ہیں پہلے کئی عرب ثقافتوں میں خواتین کو اپنی آزادی حاصل نہیں تھی۔
خواتین کی ملازمت کے نمونے پوری مسلم دنیا میں مختلف ہیں 2005 تک 16فیصد پاکستانی خواتین معاشی طور پر سرگرم تھیں جبکہ 52 فیصد انڈونیشین خواتین سرگرم تھیں۔ 2012 ورلڈ اکنامک فورم کی ایک رپورٹ اور دیگر حالیہ رپورٹس کے مطابق مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے خطے میں اسلامی خواتین اپنے معاشی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں اضافہ کر رہی ہیں ۔
دنیا میں سب سے کم لیبر خواتین فورس اردن ،عمان ،مراکش ایران ،ترکی ،الجیریا، یمن ،سعودی عرب ، پاکستان اور شام میں ہے۔ ان میں سے کچھ ممالک ایسے ہیں جن کی خواتین پارلیمنٹیرینز نہیں ہیں۔ خواتین کو اسلام کام کرنے کی اجازت دیتا ہے کچھ شرائط کے تحت مثال کے طور پر ایسی جگہ جہاں اس کے حقوق کا خیال کیا جاتا ہے ان کا احترام کیا جاتا ہے اسلامی قوانین خواتین کو اسلامی حالات میں کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
سعودی عرب میں سعودی خواتین کے لیے جون 2018 تک گاڑی چلانا غیر قانونی تھا ۔ مردوں کے ساتھ فوجی اور دوسرے پیشوں میں انکے ساتھ خدمات سر انجام دینا ان کے لئے غیر قانونی ہے لیکن اب وہاں خواتین کا ڈرائیونگ لائسنس کا حصول معمول بنتا جا رہا ہے۔
قابل ذکر حالیہ دنوں میں جرمنی کی مصنف” کرسٹین بیکر” امریکی گلوکارہ "ایلین جینٹ جیکسن اینگلو فرانسیسی” مصنف اور براڈ کاسٹر ” مریم فرانسو اس، ترک اداکارہ تونے کا راز اور عیسائی آرتھوڈوکس نے اسلام قبول کیا "۔
سوانسیا یونیورسٹی” میں75٪ مقیم خواتین نے اسلام قبول کیا۔مردوں کی نسبت عورتوں نے زیادہ اسلام قبول کیا۔اور زیادہ تر خواتین تعلیم یافتہ،جوان اور پیشہ ور تھی۔یہ تعداد 2002 میں 32٪اور 2011 میں 41٪ہو گئی۔برازیل میں اسلام قبول کرنے والی 70٪خواتین ہیں۔
خلافت میں پہلی مسلمان خاتون "انوشہ انصاری” ہیں 2006 میں ایک سروے میں بتایا گیا کہ زیادہ تر مسلمان خواتین خود کو مظلوم تصور نہیں کرتیں۔ اعصاب کی مضبوطی اللہ نے ان کی گھٹی میں رکھی ہے۔ انڈونیشیا کے ایک اسلامی پروفیسر "ناصر دین عمر” اسلام کے اندر سے ہی اصلاحی تحریک میں سب سے آگے ہیں ،جس کا مقصد خواتین کو برابری کا درجہ دینا تھا ۔
ان کی تحقیقات میں ایک کتاب” قرآن فار وومن” بھی ہے جو ایک نئی نسوانی تعبیر پیش کرتی ہے پاکستان کی پہلی ہجابی خاتون "پائلٹ شہناز لغاری” جنہوں نے حجاب کرکے جہاز اڑایا اور اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کروایا وہ اپنی برادری میں ایک اچھی سماجی کارکن بھی ہیں اور وہ معاشرے میں خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے تربیتی مراکز بھی چلا رہی ہیں
"حفیظہ سید” رہنما معلم, ڈاکٹر ,مصنف, آرٹسٹ کارکن اور اسی طرح کے دیگر اصلاحی کام اسلام کے دائرہ کار میں رہ کر کر رہی ہیں۔
"صوفینہ حمید "جرمنی جیسے ملک میں مسلمان ہونا اتنا بڑا جرم نہیں جتنا بڑا حجاب پہننا ہے انکا کہنا ہے کہ حجاب نے اور مضبوط اور باہمت بنا ڈالا "مجھے لگتا ہے جیسے ہجاب اوڑھنے کے بعد سے کسی بہت بڑی چیز کی نمائندگی کر رہی ہوں”۔
” رافیہ ارشاد "جو حجاب پہننے والی پہلی برطانیہ کی ڈپٹی ڈسٹرکٹ جج مقرر ہوئی ہیں انہیں امید ہے کہ وہ ” ٹریل بلزر”بنے گی وہ کہتی ہیں کہ یہاں آنے پر تھوڑا سا وقت لگا لیکن یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
"منیبہ مزاری” حالات کی سختیاں اور ظالم وقت کے پے در پے اپنے اوپر سہنے والے وار کے باوجود ایک چٹان کی طرح اس ظالم سماج اور لوگوں کا منہ چڑا رہی ہیں۔ ملکی اور غیر ملکی سطح پر اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔
اس عظیم قوم کی ان عظیم بیٹیوں کو سلام ۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment